تو کلمۂ Ø+Ù‚ ہے تو بکھرنے کا ہنر سیکھ
سچ ہے تو دلوں کو بھی بدلنے کا ہنر سیکھ

گر چاہئیں گلزاروچمن عشق میں تجھ کو
تو وقت کے نمرود سے لڑنے کا ہنر سیکھ

تو خاک سہی، خاک پہ مائل نہیں فطرت
اُٹھ Ø+دِ کشا Ú©Ø´ سے نکلنے کا ہنر سیکھ

ڈر ڈر کے جو جیتے ہیں وہ مردوں سے ہیں بد تر
زندہ تجھے رہنا ہے تو مرنے کا ہنر سیکھ

پھر تیری ضیا لائے Ú¯ÛŒ اک صبØ+ِ بہاراں
اے ڈوبتے سورج پھر اُبھرنے کا ہنر سیکھ

لہجے میں تپش ہے نہ نگاہوں میں وہ مستی
اے مئے کے خریدار بہکنے کا ہنر سیکھ

کتنے ہی زمانوں پہ تری گرد جمی ہے
اے لمØ+Û‚ بے فیض گزرنے کا ہنر سیکھ